اوپرا براؤزر کا نیا ڈیسک ٹاپ ورژن جاری کردیا گیا ہے جو نہ صرف غیر ضروری اشتہارات کو روکتا ہے بلکہ اس کے ذریعے وہ ویب سائٹس بھی دیکھی جاسکتی ہیں جن پر پابندی عائد ہو۔

اس وقت انٹرنیٹ پر ’’سیکیوریٹی اینڈ پرائیویسی‘‘ (تحفظ و تخلیہ) اور اشتہارات کی بھرمار دو بڑے مسائل شمار کیے جاتے ہیں۔ ایڈسینس یا اسی طرح کی دوسری سروسز کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی خواہش مند ویب سائٹس کے ہر پیج پر صرف اوپر نیچے اور دائیں بائیں ہی اشتہارات موجود نہیں ہوتے بلکہ پیج لوڈ کرتے دوران ’’پاپ اپ ونڈو‘‘ کی شکل میں بھی اشتہارات نمودار ہوجاتے ہیں جو انٹرنیٹ کنکشن کا بڑا حصہ کھا جاتے ہیں۔ نتیجتاً براڈ بینڈ انٹرنیٹ بھی ایسا سست پڑجاتا ہے جیسے وہ آج سے 20 سال پہلے کا ڈائل اپ کنکشن استعمال کررہا ہو۔

دوسرا مسئلہ بڑی حد تک سیاسی اور سماجی ہے کیونکہ ہر ملک میں ایسی تمام ویب سائٹس ’’بلاک‘‘ ہوتی ہیں جو وہاں کے ریاستی مفادات اور امن و سلامتی کے خلاف تصور کی جاتی ہیں یا پھر سرکاری نقطہ نگاہ سے ’’مخرب الاخلاق‘‘ سمجھی جاتی ہیں۔ ان ویب سائٹس تک رسائی کے لئے لوگ طرح طرح کے جتن کرتے ہیں اور آن لائن موجود ’’ان بلاک سروسز‘‘ سے لے کر ’’وی پی این‘‘ (VPN) کہلانے والے براؤزر پلگ اِن اور براؤزر ایکسٹینشن تک آزماتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں رہنے والے وہ تمام انٹرنیٹ صارفین جنہوں نے وطنِ عزیز میں یوٹیوب پر پابندی کے دوران اس ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ تک رسائی حاصل کی ہے وہ اس عذاب سے بخوبی واقف ہیں۔ مفت وی پی این سے بہت ہی کم انٹرنیٹ اسپیڈ ملتی ہے جب کہ پوری رفتار کے لیے اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے جسے ادا کرنا ایک عام پاکستانی کے بس سے باہر ہے۔

اوپرا براؤزر کے تازہ ترین ورژن میں، جسے ڈیسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ کمپیوٹرز کے لیے تیار کیا گیا ہے، ان دونوں مسائل کا ایک ساتھ ازالہ کردیا گیا ہے۔ ایک مؤثر ’’ایڈبلاک‘‘ (Adblock) یعنی غیر ضروری اشتہاروں کو ظاہر ہونے سے روکنے والا سافٹ ویئر اور ایک عدد ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) اس نئے اوپرا براؤزر کا حصہ بنادیئے گئے ہیں۔ یعنی یہ دونوں چیزیں اوپرا براؤزر کے تازہ ترین ورژن میں ’’بلٹ اِن‘‘ (built-in) موجود ہیں؛ اور یہ سب کچھ ’’بالکل مفت‘‘ ہے۔

اوپرا کی آفیشل ویب سائٹ پر اس بارے میں رکھے گئے بلاگ میں خاص طور پر وی پی این کا تذکرہ کیا گیا ہے جو 256 بِٹ کی ’’اے ای ایس اینکرپشن‘‘ استعمال کرتے ہوئے اوپرا کے پانچ ڈیٹا سینٹروں میں سے کسی ایک کے ساتھ رابطہ کرتا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اوپرا اپنے صارفین کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنا چاہتا ہے لیکن اگر براؤزرز کی بین الاقوامی مارکیٹ کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ 2011 سے لے کر 2016 تک براؤزر مارکیٹ میں اوپرا کا حصہ 2.6 فیصد سے کم ہوکر صرف 1.0 فیصد رہ گیا ہے جو اس کمپنی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے جب کہ اسی عرصے کے دوران گوگل کروم ویب براؤزر کا حصہ 24 فیصد سے بڑھتے بڑھتے اب تک 72 فیصد پہنچ چکا ہے






Post a Comment

 
Top